Tuesday 14 August 2012
Monday 13 August 2012
Tum ko Yad ho K na ho
Woh jo hum maiN tum maiN qarar tha tumhaiN yaad ho keh nah yaad ho
Wohi waada yaani nibah ka TumhaiN yaad ho keh na yaad ho
Wohi waada yaani nibah ka TumhaiN yaad ho keh na yaad ho
Woh jo lutf mujh peh thay peshtar Woh karam keh tha mray haal per
Mujhay sabb hay yaad zara zara TumhaiN yaad ho keh na yaad ho
Mujhay sabb hay yaad zara zara TumhaiN yaad ho keh na yaad ho
Woh naay gilay woh shikaayateN Woh mazay mazay ki hikayateN
Woh har ik baat peh roothna TumhaiN yaad ho keh na yaad ho
Woh har ik baat peh roothna TumhaiN yaad ho keh na yaad ho
Hooay ittefaq say gar baham To wafa jatanay ko dam badam
Gila-e-malamat-e-aqrabaa TumhaiN yaad ho keh na yaad ho
Gila-e-malamat-e-aqrabaa TumhaiN yaad ho keh na yaad ho
Koi baat aisee gar hooee Keh tumharay jee ko buree lagee
To bayaN say pehlay hee bhoolna TumhaiN yaad ho keh na yaad ho
To bayaN say pehlay hee bhoolna TumhaiN yaad ho keh na yaad ho
Kabhi hum maiN tum maiN bhi chah thee Kabhi hum maiN tum maiN bhi rah thi
Kabhi hum bhi tum bhi thay aashnaa TumhaiN yaad ho keh nah yaad ho
Kabhi hum bhi tum bhi thay aashnaa TumhaiN yaad ho keh nah yaad ho
suno zikar hai kai saal ka ke kiya ik aap ne waada tha
sau nibhahnay ka tau zikar kaya tumhain yaad ho ke na yaad ho
Woh bigarnaa wasl ki raat ka Woh naa ma’an-na kisi baat ka
Who nahiN nahiN ki har aan adaa TumhaiN yaad ho keh nah yaad ho
Who nahiN nahiN ki har aan adaa TumhaiN yaad ho keh nah yaad ho
Jisay aap gintay thay aashnaa Jisay aap kehtay thay baawafa
MaiN wohi hooN Momin-e-mubtalaa TumhaiN yaad ho keh nah yaad h
MaiN wohi hooN Momin-e-mubtalaa TumhaiN yaad ho keh nah yaad h
اب ہم پاکستانی ہیں
اب ہم پاکستانی ہیں۔ نہ بلوچی، نہ پٹھان، نہ سندھی، نہ بنگالی، نہ پنجابی ہیں ہمیں پاکستانی اور صرف پاکستانی کہلانے پر فخر کرنا چاہیے۔ ہم جو کچھ بھی محسوس کریں، جو بھی عمل کریں، جو بھی قدم اٹھائیں، پاکستانی اور فقط پاکستانی کی حیثیت میں۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ جب کوئی نیا اقدام کریں تو پہلے رک کر ذرا سوچ لیں کہ یہ آپ کا ذاتی یا مقامی پسند و نا پسند کے زیر اثر ہے یا پاکستانی کی فلاح و بہبود کا خیال دوسری سب باتوں پر غالب ہے۔
کوئٹہ میونسپلٹی کی استقبالیہ میں ۔ ١٥ جون ١٩٤٨ء
Tuesday 7 August 2012
Talk With Moosa(R.A)
اللہ نے فرمایا اے موسی اس بستی میں ایک شخص ایسا سیاہ کار ہے جس کا ایک لمحہ بھی گناہ کے بغیر نہیں گزرتا . جب تک وہ شخص اس بستی میں موجود ہے اس بستی پر رحمت کی بارش نہیں ہوسکتی.
موسی واپس ھو لئے . واپسی پر وہ اس قحط زدہ بستی میں گئے جس کے مکینوں نے آپ سے دعا کی درخواست کی تھی . آپ نے بستی کے سردار کو طلب کیا اور اس کو تمام ماجرا سنا دیا اور فرمایا اگر تم چاہتے ھو کہ تم پر سے عذاب ٹل جائے. تو اس شخص کا پتہ کرو اور اسے تلاش کر کے بستی سے نکال دو.
بستی کے سردار نے تمام بستی وا
موسی واپس ھو لئے . واپسی پر وہ اس قحط زدہ بستی میں گئے جس کے مکینوں نے آپ سے دعا کی درخواست کی تھی . آپ نے بستی کے سردار کو طلب کیا اور اس کو تمام ماجرا سنا دیا اور فرمایا اگر تم چاہتے ھو کہ تم پر سے عذاب ٹل جائے. تو اس شخص کا پتہ کرو اور اسے تلاش کر کے بستی سے نکال دو.
بستی کے سردار نے تمام بستی وا
لوں کو ایک میدان میں جمع ہونے کا حکم دیا.جب تمام لوگ گھروں سے نکل کر اس وسیع میدان میں بیٹھ گئے تو سردار نے قحط اور عتاب الہی کی وجہ بیان کرتے ہوئے اس شخص سے بستی چھوڑ جانے کی درخواست کی. ادھر میدان میں موجود لوگوں میں وہ شخص بھی موجود تھا اس نے جب سردار کی بات سنی تو لرز کر رہ گیا . احساس ذلت نے اس کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا . وہ انتظار کرتا رہا کہ شاید کوئی اس سے بھی بڑا گناہگار اٹھ کر چلا جائے لیکن کوئی نہ اٹھا . تب اسے احساس ہوا کہ وہی سب سے بڑا گناہگار ہے اور یہ کہ اسے اس بستی سے چلے جانا چاہئے. وہ اٹھنے ہی لگا تھا کہ احساس شرمندگی ، ذلت اور ندامت نے اسے بے جان سا کر دیا .
اس نے اپنا منہ اپنے سر پر رکھے کپڑے سے چھپا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا. احساس گناہ اور ندامت آنکھوں سے بہنے لگی ادھر آنسوؤں کی کثرت سے اس کا دامن بھیگنے لگا اور ادھر آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے جمع ہونے لگے ادھر رو رو کر معافی طلب کی جا رہی تھی تو ادھر رحمت کی گھٹاؤں نے بستی کو اپنی آغوش میں لے لیا اور پھر اسی میدان سے رحمت کی جل تھل کا آغاز ہونے لگا بستی والے حیران موسی پریشان کہ کوئی سیاہ کار میدان سے بھی نہیں نکلا پھر بھی رحمت کیسے ہونے لگی ؟ ادھر رونے والے نے اپنا منہ بکل سے نکالا تو بارش نے اس کے چہرے کے آنسو دھو ڈالے . معافی کی خوشی نے اسے آنکھوں کو چھلکا دیا لیکن اب منہ چھپانے کی بھی ضرورت نہ تھی اب بارش آنسوؤں کو چھپا رہی تھی سب کے سب خوشی سے گھروں کو لوٹ گئے.
اگلے روز موسی طور پر گئے تو اللہ سے شکوہ کے انداز میں پوچھا اے پروردگار اگر بارش ہی برسانی تھی تو مجھ سے یہ سب کہلوانے کی کیا ضرورت تھی؟ اللہ میاں نے فرمایا موسی بات بالکل وہی تھی لیکن اصل بات یہ ہے جب وہ میرا نہیں تھا تب بھی اس کی تمام تر سرکشی کے باوجود اسے کبھی رسوا نہیں کیا تھا ننگا نہیں کیا تھا. تو اب جب کہ وہ میرا ہوچکا تھا تو کیسے اس کی رسوائی ہونے دیتا .
اے دیوانے کاش تجھے رونا آ جائے . . کہ رونا کبھی بیکار نہیں جاتا
اس نے اپنا منہ اپنے سر پر رکھے کپڑے سے چھپا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا. احساس گناہ اور ندامت آنکھوں سے بہنے لگی ادھر آنسوؤں کی کثرت سے اس کا دامن بھیگنے لگا اور ادھر آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے جمع ہونے لگے ادھر رو رو کر معافی طلب کی جا رہی تھی تو ادھر رحمت کی گھٹاؤں نے بستی کو اپنی آغوش میں لے لیا اور پھر اسی میدان سے رحمت کی جل تھل کا آغاز ہونے لگا بستی والے حیران موسی پریشان کہ کوئی سیاہ کار میدان سے بھی نہیں نکلا پھر بھی رحمت کیسے ہونے لگی ؟ ادھر رونے والے نے اپنا منہ بکل سے نکالا تو بارش نے اس کے چہرے کے آنسو دھو ڈالے . معافی کی خوشی نے اسے آنکھوں کو چھلکا دیا لیکن اب منہ چھپانے کی بھی ضرورت نہ تھی اب بارش آنسوؤں کو چھپا رہی تھی سب کے سب خوشی سے گھروں کو لوٹ گئے.
اگلے روز موسی طور پر گئے تو اللہ سے شکوہ کے انداز میں پوچھا اے پروردگار اگر بارش ہی برسانی تھی تو مجھ سے یہ سب کہلوانے کی کیا ضرورت تھی؟ اللہ میاں نے فرمایا موسی بات بالکل وہی تھی لیکن اصل بات یہ ہے جب وہ میرا نہیں تھا تب بھی اس کی تمام تر سرکشی کے باوجود اسے کبھی رسوا نہیں کیا تھا ننگا نہیں کیا تھا. تو اب جب کہ وہ میرا ہوچکا تھا تو کیسے اس کی رسوائی ہونے دیتا .
اے دیوانے کاش تجھے رونا آ جائے . . کہ رونا کبھی بیکار نہیں جاتا
Saturday 4 August 2012
Sunday 29 July 2012
Mian Muhammad Nawaz Sharif
Mian Muhammad Nawaz Sharif was born on December 25, 1949 in Lahore, Punjab, Pakistan. He is the eldest son of Muhammad Sharif. Nawaz Sharif got his schooling from Saint Anthony’s High School. After graduating from Government College Lahore, he obtained his Law Degree from the Punjab University.
Nawaz Sharif remained a member of the Punjab Provincial Council for some time. He joined the Punjab Cabinet as Finance Minister in 1981. He first became Prime Minister on November 1, 1990, running on a platform of conservative government and an end to corruption. His term was interrupted on April 18, 1993, when President Ghulam Ishaq Khan used the reserve powers vested in him by the Eighth Amendment to dissolve the National Assembly. Less than six weeks later, the Supreme Court overruled the President, reconstituting the National Assembly and returning Sharif to power on May 26, 1993
Subscribe to:
Posts (Atom)