اللہ نے فرمایا اے موسی اس بستی میں ایک شخص ایسا سیاہ کار ہے جس کا ایک لمحہ بھی گناہ کے بغیر نہیں گزرتا . جب تک وہ شخص اس بستی میں موجود ہے اس بستی پر رحمت کی بارش نہیں ہوسکتی.
موسی واپس ھو لئے . واپسی پر وہ اس قحط زدہ بستی میں گئے جس کے مکینوں نے آپ سے دعا کی درخواست کی تھی . آپ نے بستی کے سردار کو طلب کیا اور اس کو تمام ماجرا سنا دیا اور فرمایا اگر تم چاہتے ھو کہ تم پر سے عذاب ٹل جائے. تو اس شخص کا پتہ کرو اور اسے تلاش کر کے بستی سے نکال دو.
بستی کے سردار نے تمام بستی وا
موسی واپس ھو لئے . واپسی پر وہ اس قحط زدہ بستی میں گئے جس کے مکینوں نے آپ سے دعا کی درخواست کی تھی . آپ نے بستی کے سردار کو طلب کیا اور اس کو تمام ماجرا سنا دیا اور فرمایا اگر تم چاہتے ھو کہ تم پر سے عذاب ٹل جائے. تو اس شخص کا پتہ کرو اور اسے تلاش کر کے بستی سے نکال دو.
بستی کے سردار نے تمام بستی وا
لوں کو ایک میدان میں جمع ہونے کا حکم دیا.جب تمام لوگ گھروں سے نکل کر اس وسیع میدان میں بیٹھ گئے تو سردار نے قحط اور عتاب الہی کی وجہ بیان کرتے ہوئے اس شخص سے بستی چھوڑ جانے کی درخواست کی. ادھر میدان میں موجود لوگوں میں وہ شخص بھی موجود تھا اس نے جب سردار کی بات سنی تو لرز کر رہ گیا . احساس ذلت نے اس کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا . وہ انتظار کرتا رہا کہ شاید کوئی اس سے بھی بڑا گناہگار اٹھ کر چلا جائے لیکن کوئی نہ اٹھا . تب اسے احساس ہوا کہ وہی سب سے بڑا گناہگار ہے اور یہ کہ اسے اس بستی سے چلے جانا چاہئے. وہ اٹھنے ہی لگا تھا کہ احساس شرمندگی ، ذلت اور ندامت نے اسے بے جان سا کر دیا .
اس نے اپنا منہ اپنے سر پر رکھے کپڑے سے چھپا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا. احساس گناہ اور ندامت آنکھوں سے بہنے لگی ادھر آنسوؤں کی کثرت سے اس کا دامن بھیگنے لگا اور ادھر آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے جمع ہونے لگے ادھر رو رو کر معافی طلب کی جا رہی تھی تو ادھر رحمت کی گھٹاؤں نے بستی کو اپنی آغوش میں لے لیا اور پھر اسی میدان سے رحمت کی جل تھل کا آغاز ہونے لگا بستی والے حیران موسی پریشان کہ کوئی سیاہ کار میدان سے بھی نہیں نکلا پھر بھی رحمت کیسے ہونے لگی ؟ ادھر رونے والے نے اپنا منہ بکل سے نکالا تو بارش نے اس کے چہرے کے آنسو دھو ڈالے . معافی کی خوشی نے اسے آنکھوں کو چھلکا دیا لیکن اب منہ چھپانے کی بھی ضرورت نہ تھی اب بارش آنسوؤں کو چھپا رہی تھی سب کے سب خوشی سے گھروں کو لوٹ گئے.
اگلے روز موسی طور پر گئے تو اللہ سے شکوہ کے انداز میں پوچھا اے پروردگار اگر بارش ہی برسانی تھی تو مجھ سے یہ سب کہلوانے کی کیا ضرورت تھی؟ اللہ میاں نے فرمایا موسی بات بالکل وہی تھی لیکن اصل بات یہ ہے جب وہ میرا نہیں تھا تب بھی اس کی تمام تر سرکشی کے باوجود اسے کبھی رسوا نہیں کیا تھا ننگا نہیں کیا تھا. تو اب جب کہ وہ میرا ہوچکا تھا تو کیسے اس کی رسوائی ہونے دیتا .
اے دیوانے کاش تجھے رونا آ جائے . . کہ رونا کبھی بیکار نہیں جاتا
اس نے اپنا منہ اپنے سر پر رکھے کپڑے سے چھپا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا. احساس گناہ اور ندامت آنکھوں سے بہنے لگی ادھر آنسوؤں کی کثرت سے اس کا دامن بھیگنے لگا اور ادھر آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے جمع ہونے لگے ادھر رو رو کر معافی طلب کی جا رہی تھی تو ادھر رحمت کی گھٹاؤں نے بستی کو اپنی آغوش میں لے لیا اور پھر اسی میدان سے رحمت کی جل تھل کا آغاز ہونے لگا بستی والے حیران موسی پریشان کہ کوئی سیاہ کار میدان سے بھی نہیں نکلا پھر بھی رحمت کیسے ہونے لگی ؟ ادھر رونے والے نے اپنا منہ بکل سے نکالا تو بارش نے اس کے چہرے کے آنسو دھو ڈالے . معافی کی خوشی نے اسے آنکھوں کو چھلکا دیا لیکن اب منہ چھپانے کی بھی ضرورت نہ تھی اب بارش آنسوؤں کو چھپا رہی تھی سب کے سب خوشی سے گھروں کو لوٹ گئے.
اگلے روز موسی طور پر گئے تو اللہ سے شکوہ کے انداز میں پوچھا اے پروردگار اگر بارش ہی برسانی تھی تو مجھ سے یہ سب کہلوانے کی کیا ضرورت تھی؟ اللہ میاں نے فرمایا موسی بات بالکل وہی تھی لیکن اصل بات یہ ہے جب وہ میرا نہیں تھا تب بھی اس کی تمام تر سرکشی کے باوجود اسے کبھی رسوا نہیں کیا تھا ننگا نہیں کیا تھا. تو اب جب کہ وہ میرا ہوچکا تھا تو کیسے اس کی رسوائی ہونے دیتا .
اے دیوانے کاش تجھے رونا آ جائے . . کہ رونا کبھی بیکار نہیں جاتا
No comments:
Post a Comment
Thanks for your nice comment